برہنگیٔ صداقت ، ایک احتجاج جو ایوانِ اقتدار کی بنیادوں کو ہلا گیا


مُلکِ مکسیقو کے پارلیمانی ایوان میں وہ منظر رونما ہوا جو شاید اہلِ بصیرت مدتوں نہ بھول سکیں گے۔
        دنیاوی جاہ و جبروت میں غرق اربابِ اختیار کے درمیان اچانک ایک شخص اُٹھا۔۔۔۔
                      ایسا شخص جس کے بدن پر اگرچہ لباس کم تھا، مگر ضمیر کے پیکر پر سچائی کا جوش لبریز تھا۔

وہ رکنِ پارلیمان جب منبرِ گفتار پر پہنچا تو فضا میں ایک غیر مرئی سنجیدگی چھا گئی۔
پھر اس نے اپنے جسم کا پوشاک ایک ایک کر کے اُتار پھینکا۔
دستارِ اقتدار کے ایوان میں ایک لمحے کو گویا وقت تھم گیا۔
نگاہیں جھک گئیں، زبانیں گنگ ہو گئیں،
اور وہ شخص، جسے اب سب حیرت سے دیکھ رہے تھے،
ایسا کلام کرنے لگا جو صرف لبوں سے نہیں بلکہ ضمیر کے آتشدان سے اُبھرتا ہے۔

> “مجھے برہنہ دیکھ کر تمہیں شرم آتی ہے؟
مگر کیا اُن ننگے پاؤں، مفلوک الحال بچوں پر تمہیں شرم نہیں آتی
جو بھوک سے بلکتے ہوئے سڑکوں پر خستہ جاں پھرتے ہیں؟
کیا اُن مزدوروں پر تمہیں غیرت نہیں آتی
جن کے پسینے سے تمہارے محلات کی اینٹیں جڑتی ہیں
مگر خود اُن کے گھروں میں چولہا سرد رہتا ہے؟
کیا اُن ماؤں کے آنسو تمہارے دلوں میں جنبش نہیں پیدا کرتے
جو اپنے لختِ جگر کو بھوک کے ہاتھ بیچنے پر مجبور ہیں؟
تم دولت کے انبار پر بیٹھے ہو،
اور قوم کا سرمایہ ننگی محرومیوں میں تڑپ رہا ہے۔
تمہاری تجوریاں لبریز ہیں، مگر تمہارا ضمیر خالی ہے۔
کب جاگو گے تم؟ کب تمہیں احساس ہوگا
کہ یہ ملک تمہاری میراث نہیں بلکہ تم پر عائد ایک امانت ہے —
جس کا حساب تمہیں دینا ہوگا!”

یہ صدائے احتجاج نہ فقط دیواروں سے ٹکرائی بلکہ ہر دل میں خنجر کی طرح اُتر گئی۔
ایوانِ اقتدار میں ایسا سکوت طاری ہوا کہ لفظوں کا جادو ماند پڑ گیا۔
کسی نے لب نہیں ہلائے، کسی نے نگاہ نہیں اُٹھائی۔
بس فضا میں ایک عجیب سی شرمندگی رقصاں تھی،
جیسے اقتدار کا سر خود اپنے ہی سائے میں جھک گیا ہو۔

تاریخ نے اُس دن کو اپنے سنہری اور سیاہ دونوں حرفوں میں ثبت کیا ۔
کیونکہ شاید پہلی بار کسی نے سچ کو لباس سے نہیں، احساس سے آراستہ کر کے دکھایا تھا۔
ایسا سچ جو فصاحت کا محتاج نہیں،
جو خطابت کے پردے میں نہیں چھپتا،
بلکہ ننگی حقیقت کی طرح نگاہوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔

اور یوں میکسیقو کی پارلیمنٹ میں ایک لمحے کے لیے
اقتدار برہنہ ہو گیا،
اور ضمیر نے پہلی بار لب کھولے۔